حضرت میاں میر


حضرت میاں میر

محمد نسیم عباسی

دربار حضرت میاں میر

نام و نسب:

آپ کا اسم گرامی محمد میر اور عرف میاں میر، میاں جیو، بالا پیر اور شاہ میر ہے۔ میاں کا لفظ ’’صاحب‘‘ ’’جیو‘‘ عزت اور تعظیم کے لئے ہے۔ (دارشکوہ، سکینۃ الاولیائ، اردو ترجمہ، ص: 25) آپ کے والد محترم قاضی سائیں دتہ دادا قاضی قلندر، نانا قاضی قاون اور والدہ ماجدہ بی بی فاطمہ تھیں۔ آپ کا سلسلہ نسب 28واسطوں سے امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ تک پہنچتا ہے۔ آپ کے والد محترم قاضی سائیں دتہ اپنے وقت کے جید عالم دین، متقی اور پرہیز گار تھے۔ آپ شریعت کو طریقت سے اور طریقت کو حقیقت سے وابستہ رکھتے تھے۔ آپ سیوستان بلکہ سارے سندھ میں مشہور بزرگ ہو گزرے ہیں۔

سکینۃ الاولیاء سے اتنا پتہ چلتا ہے کہ حضرت میاں محمد میرؒ قاضی بولن، قاضی عثمان، قاضی طاہر، قاضی محمد میر المعروف بہ میاں میر اور دو بہنیں بی بی جمال خاتون، بی بی جمال باری تھے۔ آپ کا خاندان منصب قضاۃ پر فائز رہا تھا اور علمی میراث کا حامل تھا۔

ولادت باسعادت:

شہزادہ داراشکوہ نے اپنی کتاب سکینۃ الاولیاء میں آپ کی ولادت کے بارے میں درج ذیل دو روایتیں نقل کی ہیں۔

1۔ آپ 938ھ/1532ھ میں پیدا ہوئے۔

2۔ آپ کی ولادت 957ھ/1550ھ میں ہوئی۔

باقی تذکرہ نگاروں نے بھی یہی دو روایات نقل کی ہیں۔ البتہ محققین کی رائے میں 957ھ/1550ھ کا سال ولادت صحت کے زیادہ قریب ہے تحفتہ الکرام میں بھی یہی سال ولادت تحریر کیا گیا ہے۔

جائے ولادت:

آپ سندھ کے قدیم شہر سیستان (سہون) میں پیدا ہوئے۔ یہ شہر ضلع دادو میں بھکر اور ٹھٹھہ کے درمیان واقع ہے۔ آپ کا خاندان قاضی خاندان کے طور پر مشہور تھا جن کے علم و فضل کا بڑا چرچا تھا۔ آپ کے آباؤاجداد عرصہ سے یہاں مقیم تھے۔ آپ کا بچپن یہیں گزرا آپ سندھی زبان بولتے تھے۔

تعلیم و تربیت:

سات سال کی عمر میں آپ کے والد انتقال فرما گئے۔ آپ نے والدہ ماجدہ کی سرپرستی میں مختلف اساتذہ سے ابتدائی علوم و فنون حاصل کئے۔ آپ نے اپنی والدہ ماجدہ سے جو زہد و تقویٰ کی بناء پر اپنے زمانے کی رابعہ بصری مشہور تھیں سلسلہ قادریہ کے سلوک کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

بیعت:

والدہ سے سلوک کی ابتدائی تربیت پانے کے بعد آپ نے ان کی اجازت سے سندھ میں سلسلہ قادریہ کے عظیم المرتبت صوفی حضرت شیخ خضر سیوستانی کے دست مبارک پر بیعت کر لی۔ ان کے فیوض و برکات سے پورا سندھ منور تھا۔ وہ تقویٰ، تقدس، توکل اور استغناء کے اوصاف عالیہ سے مزین تھے۔ توکل اور استغناء کا یہ عالم تھا کہ زندگی بھر اپنے پاس کوئی چیز نہ رکھی۔ آپ سیوستان کے باہر ایک پہاڑ میں مقیم رہے جہاں ان کا سارا وقت عبادت اور یادالٰہی میں گزرتا تھا۔ (خزینۃ الاصفیائ، ج1، ص136)

مرشد حضرت شیخ خضر سیوستانیؒ ریاضت و مجاہدہ میں مصروف رہے تاآنکہ علوم باطنی کی تکمیل پر مرشد نے فرمایا کہ اب تمہارا کام مکمل ہو چکا ہے لہٰذا جہاں چاہو سکونت اختیار کر لو چنانچہ آپ ان کی اجازت سے لاہور تشریف لے آئے اور وصال تک یہیں رہے۔

حضرت میاں میرؒ ، لاہور آمد اور اعلیٰ تعلیم کا حصول:

آپ پچیس سال کی عمر میں 982ھ/1575ھ میں بعہد جلال الدین اکبر لاہور تشریف لائے لاہور میں قیام کے دوران آپ نے مولانا سعد اللہؒ، نعمت اللہ لاہوریؒ اور مفتی عبدالسلام لاہوریؒ علماء سے علوم و فنون پڑھے۔ شیخ محب اللہ الٰہ آبادیؒ، عبدالسلامؒ آپ کے ساتھ فیض یاب ہوئے۔

برصغیر میں سیاسی و مذہبی حالات:

حضرت میاں میرؒ یہ دور جلال الدین اکبر کا عہد حکومت تھا۔ جو 993ھ بمطابق 1585ء سے 1006ھ بمطابق 1598ء تک مختلف بغاوتوں اور شورشوں کو دور کرنے کیلئے لاہور میں رہے۔ اس زمانے میں مسلمان کمزور اور اقلیت میں تھے۔ اصلاح احوال کیلئے دیگر علماء و صوفیاء کے ساتھ ساتھ سلسلہ قادریہ کے مشائخ کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ انہوں نے ہندوستان خاص طور پر پنجاب اور سندھ میں اشاعت اسلام میں بڑا کردار ادا کیا۔ خصوصاً سلسلہ قادریہ کے عظیم بزرگ حضرت میاں میر قادری اور ان کے خلفاء کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ خاندان مغلیہ کے حکمران حضرت میاں میر سے عقیدت رکھتے تھے چنانچہ جہانگیر، شاہ جہاں، شہزادہ داراشکوہ، شہزادہ شہریار اور اورنگزیب عالمگیر آپ کے دربار میں حاضری کو سعادت سمجھتے تھے۔ آپ کے زہد و تقویٰ اور توکل و استغناء کے پیش نظر مسلم آبادی کے ساتھ ساتھ غیر مسلم آبادی بھی آپ سے خاص عقیدت رکھتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ گرو ارجن نے جب امرتسر میں دربار صاحب کی تعمیر کا ارادہ کیا تو عقیدت کے طور پر اس کا سنگ بنیاد حضرت میاں میر سے رکھوایا۔ اس طرح مہاراجہ رنجیت سنگھ زندگی بھر آپ کے مزار مبارک پر نذرانہ بھجواتا رہا۔

حضرت میاں میرؒفنافی اللہ کی منزل میں تھے‘ گوشہ نشین تھے اور شہرت سے بیزار تھے‘ یہی وجہ ہے کہ سندھ سے لاہور آنے کے بعد چالیس سال تک گمنام رہے۔ آپ کا لباس فقراء اور درویشوں جیسا نہ تھا۔ سفید دستار اور کھدر کا کرتا پہنتے تھے‘ آپ گدڑی نہیں پہنتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ لباس ایسا ہونا چاہئے کہ کوئی پہچان نہ سکے کہ اس کا مسلک درویشی ہے۔ (سکینۃ الاولیا‘ ص 75)

آپ سراپا حسن اخلاق تھے۔ حسن اخلاق کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی شخص تھوڑی دیر کے لئے بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو اس سے اس قدر عنایت و شفقت سے پیش آتے کہ اسے یہ خیال ہوتا کہ آپ کہ جو عنایت و شفقت مجھ پر ہے وہ کسی دوسرے پر نہیں۔ داراشکوہ کا بیان ہے کہ آپ اس قدر مجسمہ اخلاق تھے کہ اگر اخلاق کسی مرد کی صورت میں ہوتے تو حضرت میاں میرؒ کی صورت میں ہوتے۔ (سکینۃ الاولیا‘ ص 58)

حضرت میاں میرؒ کا سفر سرہند اور واپسی:

لاہور میں قیام کے دوران آپ کے علم و فضیلت کی شہرت ہوئی تو معتقدین اور طالبان علم بکثرت آپ کے پاس کسب فیض کے لئے آنے لگے۔ اسی اثنا میں آپ سرہند تشریف لے گئے۔ وہاں آپ گھٹنے کے درد اور دوسرے عوارض میں مبتلا ہو گئے۔ اس دوران حاجی نعمت اللہ سرہندیؒ نے آپ کی تیمار داری کی۔ صحت یاب ہونے پر فرمایا کہ مال و متاع نہیں جو تمہیں دوں لیکن روحانی دولت سے مالا مال کر سکتا ہوں‘ چنانچہ آپ نے ان پر خصوصی توجہ فرمائی اور ایک ہی ہفتہ میں سلوک کے درجہ کمال پر پہنچا دیا۔ سرہند ایک سال قیام کے بعد آپ واپس لاہور آئے اور آخر عمر تک یہیں مقیم رہ کر دعوت و ارشاد میں مصروف رہے۔ (تذکرہ صوفیائے پنجاب‘ ص 569)

وفات:

آپ کی وفات 88 سال کی عمر میں بروز منگل 7 ربیع الاؤل 1045ھ بمطابق 1635ء کو ہوئی۔ آپ کے سال وفات پر تمام تذکرہ نگار متفق ہیں لیکن عمر کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ داراشکوہ سکینۃ الاولیاء میں لکھتے ہیں کہ ’’بعض لوگ آپ کی عمر 107 سال ولادت 957ھ اور وفات 1045ھ ہے۔ اس حساب سے آپ کی عمر 88 سال ہوتی ہے۔ (سکینۃ الاولیا‘ ص 118)

مدفن اور مزار:

حضرت میاں میرؒ کو ان کی وصیت کے مطابق مریدین کے ساتھ موضع ہاشم پورہ نزد دارا پور میں دفن کیا گیا۔ موضع ہاشم پورہ 1053ھ میں داراشکوہ کے حکم پر مسمار کر دیا گیا تھا۔آج کل یہ علاقہ ’’میاں میرؒ کے نام سے موسوم ہے۔ مزار مبارک کی تعمیر کے لئے داراشکوہ نے انتظامات کئے مگر وہ قتل ہو گیا تو اس کے بعد اس کی تعمیر اورنگزیب عالمگیر کے ہاتھوں انجام پائی۔

خلفاء مریدین:

آپ کے خلفاء و مریدین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان میں سے جنہوں نے سلسلہ قادریہ کے فیوض و برکات کو عام کیا ان میں حاجی نعمت اللہ سرہندی‘ میاں نتھادیوان‘ حاجی مصطفی سرہندی‘ ملا حامد گجر‘ ملا روحی معروف بہ ابراہیم‘ ملا خواجہ کلاں‘ حاجی صالح کشمیری‘ ملا عبدالغفور شیخ ابوالخیر‘ شیخ اسماعیل‘ قاضی عیسیٰ اور ملا محمد بدخشی سرفہرست ہیں۔

سجادہ نشینان خانقاہ عالیہ:

آپ کی صلبی اولاد نہ تھی۔ اس لئے شہزادہ داراشکوہ نے آپ کے وصال کے بعد آپ کی بہن حضرت بی بی جمال خاتون کے صاحبزادے حضرت محمد شریفؒ (1054ھ) کو سندھ سے بلا کر آپ کا سجادہ نشین مقرر کیا اور خانقاہ سے ملحق تمام عمارات و جائیداد ان کے سپرد کی۔ ان کی وفات کے بعد ان کی اولاد سجادہ نشین رہی۔ 1960ء میں محکمہ اوقاف پنجاب نے اس خانقاہ کا انتظام و انصرام اپنی تحویل میں لے لیا۔ محکمہ اوقاف پنجاب کے زیرانتظام مزار مبارک اور مسجد کی تعمیر و تزئین اور زائرین کی سہولت کے لئے مختلف منصوبوں پر کام جاری‘ ساری رہتاہے

لاہور کے معاصر اولیاء کرام:

اس زمانے میں لاہور میں سلسلہ قادریہ سہروردیہ چشتیہ اور نقشبندیہ کے بہت سے بزرگان دین قیام پذیر تھے۔ ان میں سے چند بزرگوں کے اسمائے گرامی ذیل میں درج ہیں۔

-1 سلسلہ قادریہ:

حضرت خیرالدین ابوالمعالی کرمانی حضرت شاہ ابواسحاق، حضرت سید کامل شاہ، حضرت طاہر بندگی، حضرت شاہ بلاول قادری، حضرت شیخ حسین لاہور۔

-2 سلسلہ سہروردیہ:

مخدوم شیخ حمزہ کشمیری، بابا دادو خاکی، حضرت سید جھولن مشہور بہ گھوڑے شاہ لاہوری، میراں موج دریا بخاری، حضرت شاہ جمال لاہور، حضرت شاہ دولہ، گجراتی، حضرت شیخ محمد اسماعیل معرفت بہ میاں وڈا

-3 سلسلہ چشتیہ:

حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی، حضرت شیخ جلال الدین تھانیسری، حضرت شیخ جان اللہ چشتی، حاجی عبدالکریم چشتی، شیخ ابو سعید چشتی صابر گنگوہی، شیخ عبدالخالق چشتی،

-4 سلسلہ نقشبندیہ:

حضرت ملا جمال تلوی نقشبندی حضرت خواجہ خاوند محمود المعروف بہ حضرت ایشاں نقشبندی، شیخ محمد سعید نقشبندی مجددی، حضرت شیخ محمد معصوم نقشبندی

کرامات:

آپ سے بہت سی کرامات منسوب ہیں لیکن آپ ان کے ظاہر کرنے میں بہت محتاط تھے اور انہیں عوام سے پوشیدہ رکھتے تھے۔

حضرت میاں میر:

حضرت میاں میر علیہ الرحمتہ علم و عرفان کے نہایت بلند مرتبے پر فائز تھے۔ ان کو دینی علوم پر کامل دسترس حاصل تھی اور یہ عالم تھا کہ جب آیات قران، احادیث نبوی اور اکابرکے اشعار و اقوال کی تشریح فرماتے تو مجلس میں موجود علماء و فضلاء حیران رہ جاتے۔ آپ کی الہامی باتیں بجائے خود کرامت اور ترجمان وحی ہوتی تھیں۔ استفسارات کا جواب یوں دیتے تھے کہ اساس مطمئن ہو جاتا تھا۔

آپ نے کوئی کتاب تصنیف نہیں کی۔ آپ کی حیات و تعلیما ت کے بارے میں شہزادہ داراشکوہ نے کتاب ’’سکینۃ الاولیا‘‘ لکھی اور اس وقت یہی مآخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ دیگر تذکرہ نگاروں نے اسی سے استفادہ کیا ہے۔ اس کی روشنی میں آپ کی چند تعلیمات یہ ہیں:۔

-1 بازاروں اور گزرگاہوں میں تنہا چلو تاکہ یاد الٰہی میں مشغول رہ سکو۔ (سکینۃ الاولیائ، ص60)

-2 روح خدا کا امر ہے اودر امر الٰہی کی تعظیم یہ ہے کہ یاد حق سے غافل نہ ہونے دیا جائے۔ (سکینۃ الاولیائ، ص59)

-3 آپ نذرانہ جات سے پرہیز فرماتے تھے اور کہتے تھے کہ میں مفلس و مستحق نہیں، غنی ہوں جس کا خدا ہو وہ مفلس نہیں ہوتا۔ (سکینۃ الاولیائ، ص80)

-4 دل سے جاہ کی محبت نکال دینا بڑا مجاہدہ ہے۔ (سکینۃ الاولیائ، ص80)

-5 سلوک کے مرتبوں میں سے پہلا مرتبہ شریعت ہے۔ (سکینۃ الاولیائ، ص 66)

-6 آدمی تین چیزوں یعنی نفس، دل اور روح کا مجموعہ ہے ہر ایک کی اصلاح تین چیزوں سے ہوتی ہے ان میں سے اصلاح نفس، شریعت کی پیروی سے، اصلاح دل، طریقت کے فرائض ادا کرنے سے اور اصلاح روح، حقیقت کے مرتبوں کی حفاظت سے ہوتی ہے۔ حقیقت کا مفہوم و جود کو فانی بنانا اور دل کو ماسویٰ اللہ سے خالی کرنا ہے جو درجہ قرب تک واصل ہوتا ہے۔ (سکینۃ الاولیائ، ص103)

-7 اولیا اللہ کی موت ان کے نفس کی موت ہوتی ہے۔ نفس کی موت کے بعد انہیں ابدالآباد کی زندگی حاصل ہوتی ہے۔

-8 آپ فرماتے ہیں کہ لباس ایسا ہونا چاہیے کہ کوئی پہچان نہ سکے کہ یہ درویش ہے، صوفی ہے، فقیر ہے یا کیا ہے۔ (سکینۃ الاولیائ، ص75)

-9 آپ یاران طریقت کو تاکید فرماتے تھے کہ قلب کی حضوری کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ اگر یہ نہیں تو نماز تنہا یا باجماعت بیکار ہے۔ (اولیائے لاہور، ص72)

-10 سماع کے بارے میں آپ کا مسلک:

آپ سماع سے شغف رکھتے تھے لیکن آپ نے کبھی قوالوں کو طلب نہیں کیا اور نہ وہ ہمیشہ ان کی خدمت میں رہے۔ آپ شریعت کی پابندی اور ضبط نفس کی بنا پر وجد و رقص نہیں کرتے تھے۔ سماع کے دوران خوش ہوتے تو خوشی آپ کے چہرے سے عیاں ہوتی اور ریش مبارک کے بال کھڑے ہو جاتے تھے مگر وقار ایسا تھا کہ نہ کوئی حرکت صادر ہوتی او ر نہ ہاتھ اٹھاتے۔